Friday, February 1, 2013

پاکستان میں مسلکی تشدد کی نصف صدی

پاکستان میں مسلکی تشدد کی نصف صدی 
کیسا نظام الہی، کہاں کی اسلامی حکومت
آصف اعظمی 

پچھلے کچھ دنوں سے پاکستان کے حالات نہایت دھماکہ خیز بنے ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ سے لے کر آرمی اور عوام نے جمہوری حکومت پر دھاوا بول دیا ہے۔اور وہ سبھی مل کر آئین اور جمہوریت تو چھوڑئیے، اسلامی اقدار کی دھجیاں اڑانے میں لگے ہیں۔
پاکستان بدامنی اور عدم استحکام کی جس راہ پر جا نکلا ہے ، اس سے واپسی کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔ جب عوام کی درمیان تفرقہ، مذہبی منافرت اور مسلکی تشدد اس قدر جڑیں جما چکا ہو تو بھلا کیوں کر کوئی امید کی جاسکتی ہے۔اسلام نے اعتدال، میانہ روی ، رواداری، صلح و مصالحت کا راستہ دکھایا تھا ، مگر مذہبی شدت پسندوں نے جو طریق اپنایا وہ جہالت، نخوت اورروحِ اسلام کے منافی ہے۔گزشتہ ہفتہ کوئٹہ میں ایک مخصوص مسلک کے افراد کو نشانہ بنا کر کئے گئے بم دھماکوں اور خود کش حملوں نے درمند دلوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ۔ حقوق انسانی کے لئے کام کرنے والوں کی برداشت جواب دینے لگی ہے، کیونکہ مارے جانے والوں میں اکثریت ہزارہ برادری کے لوگوں کی تھی جو اپنے مخصوص رنگ ونسل اور عقیدہ کے چلتے پہلے سے ہی کافی تعصب کا شکار رہے ہیں۔وہ اوروں سے کافی الگ ، باہر ی دنیا سے دور اورامن پسند واقع ہوئے ہیں۔ پھر بھی مسلکی انانیت اور دہشت کے ہرکارے پچھلے دس بارہ برسوں میں اس برادری کے زائد از دو ہزار افراد کو نشانہ بنا چکے ہیں۔ 
گروہی عصبیت ، تفریق اوراحساس برتری انسانی خو میں داخل ہے۔ تاہم، رسول عربی کے ماننے والوں میں یہ بیماریاں غیر مطلوب تھیں ۔ اس کا کیا کیجئے کہ رسول عربی کی وفات کے سو سال کے اندر ہی ان کے ماننے والوں کے درمیان اس قدراختلاف اور تفرقہ بازی پھوٹ نکلی کہ جس کا سدباب آج تک نہیں ہو سکا ہے۔ یہ درست ہے کہ مجتہدین اور مصلحین نے اس خلا کو بساط بھر بھرنے کی کوشش ضرور کی مگر جو کمزوری اس قدر اندر تک جاں پکڑ چکی ہو اس کا مکمل خاتمہ ممکن نہیں ہوتا ہے۔بلکہ اس کمزوری کا فائدہ اوروں نے ضرور اٹھایا اوروقتا فوقتاً اس آگ کو ہوا دے کر اپنے مطالب سیدھے کیے ہیں۔ 
بر صغیرخصوصاًموجودہ پاکستانی علاقہ جات جیسے انبالہ ، روہتک، کرنال، پٹیالہ اور حصار وغیرہ مسلکی تفرقہ، مناظرہ بازی اورمذہبی منافرت کی آماجگاہ رہے ہیں۔ آزادی کے بعد جب پاکستان کو اسلامی مملکت کا نام دیا جانے لگا تبھی یہ خدشہ پیدا ہو تھا کہ یہ مملکت کس اسلامی عقیدہ کو فروغ دے گی۔ اسلام کا تو مملکتی امور سے دور دور کا واسطہ نہیں رہا، مگر عوام میں اپنے مسلک کو برتر ثابت کرنے کی ایک ہوڑ سی لگ گئی۔ ایک اندازہ کے مطابق بیسویں صدی کے نصف آخر میں پاکستان میں مسلکی تشدد کے پندرہ سو واقعات ہوئے جن میں ہزاروں افراد کو اپنی جانیں گنوانی پڑیں۔ معاملہ یہیں تک رہتا تب بھی ٹھیک تھا۔ بات تو تب خراب ہوئی جب باہری طاقتوں نے اس میں دخل دینا شروع کردیا۔ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں جب زکوٰۃ وہ عشرے کی حصولیابی حکومت کی ذمہ داری ٹھہرائی گئی تو ایک مسلک کے لوگوں نے اس کی شدید مخالفت کی کیوں کہ یہ ان کے عقیدہ کی رو سے واجب نہ تھا۔ملک بھر میں زبردست احتجاج اور پارلیمنٹ کا گھیراؤ کے بعد ایران اور بالخصوص امام خمینی کی مصالحت سے حکومت کو آرڈنینس میں تبدیلی کرنی پڑی۔ اس صورت حال نے دوسرے مسالک کو بھی اپنی برتری ثابت کرنے اور ’’سواد اعظم ‘‘ کے نام سے اپنی باتیں منوانے کا حوصلہ مل گیا۔دوسری طرف سعودی عرب کو محسوس ہوا کہ پاکستان میں ایران کا اثرو نفوذ بڑھ رہا ہے ، اس لئے اس نے بھی مخالف گروہ کی حوصلہ افزائی شروع کردی۔ اس کمزوری کوبالواسطہ تپانے اور جلا بخشنے کا کام کچھ عالمی طاقتوں نے بھی کیا جن کا مفاد افغانستان سے سابق سوویت یونین کے انخلاء میں پوشیدہ تھا۔پھر کیا تھا، اب تک مناظروں، پمفلٹوں اور کتابچوں کے ذریعہ لڑی جارہی مسلکی جنگ کو بارودی جنگ میں تبدیل ہوتے دیر نہیں لگی۔ 
یہ سارا جھگڑا دین سے زیادہ اقتداء اور عوامی پکڑ کا تھا ۔ ایک مسلک کی نوجوان تنظیم نے اگر اجتماعی قوت کے بل پر حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا تھا تو دوسرے مسالک کو اس سے انسپریشن لینی چاہئے تھی ، نہ کہ وہ بغض و عناد کا شکار ہوکر اس اجتماعی قوت کے خلاف نبرد آزما ہوجاتے ۔ سواد اعظم اہل سنت، انجمن سپاہ صحابہ وغیرہ اسی ردعمل کی پیداوار تھیں جن کے مقاصد میں ایک مقصد پاکستان کو سنّی اسٹیٹ بنا نا تھا۔ اسی کی دہائی میںیہ عالم تھا کہ شیعہ کنونشن، سپاہ صحابہ جیسی تنظیموں کی کارکردگی کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا تھا اور پنجاب، جھنگ، کوئٹہ وغیرہ میں معصوم جانوں کا اتلاف روزانہ کا معمول بن چکا تھا۔ اہل حدیث علماء علامہ احسان الہی ظہیراورمولانا حبیب یزدانی، فقہ جعفریہ کے مشہور عالم علامہ عارف الحینی اور سپاہ صحابہ کے مولانا حق نواز جھنگوی کو اسی دوران پر تشدد حملوں میں ہلاک کیا گیا۔ لیکن نوے کی دہائی آتے آتے مسلکی انتہا پسندی نے باقاعدہ دہشت گردی کی صورت اختیار کر لی اور اس کے نتیجہ میں مسلکی کارکنان ہی نہیں، عام افراد بھی نشانہ بنائے جانے لگے ۔ یہ بات لطیفہ نہ رہی کہ ڈاکٹر کے بدلے ڈاکٹر، وکیل کے بدلے وکیل اور تاجر کے بدلے تاجر مارے گئے۔ پھر کیا ایس پی، کیا صوبائی سکریٹری، کیا جیویشیل مجسٹریٹ سبھی جدید ہتھیارو راکٹ لانچر بدست مسلکی دہشت گردوں کا بنے۔ 
عالمی سطح پر امریکہ و اتحادیوں کے عراق بعد ازیں افغانستان پر حملوں کے بعد حالات تھوڑے بدلے ضرور تھے، جب طالبان اوردیگر افغانی جنگجوؤں کو نہ صرف بڑی طاقتوں کی اصل چالوں کا نہ صرف پتہ لگا تھا بلکہ ان کے ظلم و جبر کا بھی سامنا کرنا پڑاتھا۔ لیکن یہ کیفیت عارضی ہی ثابت ہوئی۔ جن دلوں میں برسوں کی نفرت کا زہر بھرا ہوا اور منہ کو خون لگا ہوا وہ بھلا کیوں کر راہ راست پر آنے والے۔افغان جہاد سے وابستہ افغانی اور پاکستانی تنظیموں میں دہشت پسندی اس قدر جڑیں جما چکی ہے کہ ان کی کمائی ہی ہتھیاروں کی اسمگلنگ، منشیات کی تجارت اور اغوا برائے تاوان سے ہوتی ہے اور انہیں یہ سب کچھ کرتے ہوئے اسلام کی تعلیمات مطلق یاد نہیں رہتی ہیں۔ اس معاملہ کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ ہے کہ عرب ممالک میں جہاں جہاں تیل کے ذخائر ہیں وہاں عام طور پر ایک مسلک کے ماننے والے زیادہ بڑی تعداد میں آباد ہیں۔ تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد امریکی مفادات کی نگرانی کون کرے۔ وہ کرزئی ہرگز نہیں ہوسکتے جو خود امریکی فوج کے زیر سایہ حکومت چلارہے تھے۔ چنانچہ طالبان پر امریکہ کی عنایات بڑھتی جارہی ہیں۔ چوتھا پہلو یہ کہ افغانستان میں ہندوستانی اثرو نفوذ پاکستان کو بالکل نہیں بھاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیر داخلہ رحمان ملک نے بھی اعلان کیا ہے کہ اگر حکیم اللہ محسود تشد د کا راستہ چھوڑکر ڈائیلاگ کا راستہ اختیار کریں تو انہیں خوش آمدید کہا جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ پنے اپنے مفادات کے چلتے دہشت پسند جماعتوں اور اسلام کی آڑ میں حکومت کرنے اور معیشت چمکانے کا خواب دیکھنے والوں کی یوں ہی حوصلہ افزائی کی جائے گی تو نتائج کی سنگینی کا محض اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے۔ پھر ایسے افراد اپنا دبدبہ قائم رکھنے اور اپنا وزن بڑھانے کے لئے خارج از اسلام فتاویٰ سے لے کر انسانی جانوں کی ہلاکت تک ہر صحیح غلط کام کو روا رکھتے ہیں۔
پاکستان میں جاری مسلکی تشدد کی اس آگ کو اگر بجھا نا ہے تو وہاں کے لبرل افراد،اسلام کی صحیح سوچ رکھنے والے علمائے کرام اور اسلامی تنظیموں بشمول جماعت اسلامی ، جمعیت علماء اور منہاج قرآن سے ہٹ کر اسمبلیوں کی تحلیل کا مطالبہ کرنے والے علامہ القادری جیسے لوگوں کو سیاست کا راستہ چھوڑ کر ذہن سازی کا راستہ اپنانا ہوگا۔ اقامت دین یا اسلامی اسٹیٹ پہلے ذہنوں میں قائم ہوگاتبھی زمین پر اترسکتا ہے۔ ورنہ اس کی حالت موجودہ پاکستان سے بھی بدتر ہوگی اور لعنت ملامت ہی اس کے حصہ میں آئے گی۔ دوسری جانب پاکستانی حکومت اور فوج کو متشد د اور متحارب جماعتوں اور افراد خواہ وہ کسی بھی مسلک کے ماننے والے ہوں سے سختی سے نمٹنا ہوگا۔ قانون کی حکمرانی ، امن اور استحکام سے ملک چلتا ہے ، جذبات سے نہیں۔محض ہند دشمنی میں ایسے افراد کو شہہ دینا اور انہیں ڈھیل دئے رہنا خود پاکستان کے حق میں نہیں۔اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان دہشت گرد افراد اور تنظیموں کے خون کو ہمیشہ گرمائے رکھنے سے جنگ کی حالت میں مدد ملے تو انہیں یہ بھی جان لینا چاہئے کہ امن کی ایک مہلت اور فراغت میں یہی خون پاکستان پر قہر بن کر ٹوٹے گا اوراس کے نتیجہ میں پاکستان کے تارو پود بھی بکھر جائیں گے۔

Wednesday, August 29, 2012

روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم کا سلسلہ دراز اور ہمارا ردعمل


روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم کا سلسلہ دراز اور ہمارا ردعمل
آصف اعظمی


                برما۔ پہلی باریہ نام بچپن میں سنا تھا۔تب نہ تو تاریخ وجغرافیہ کے علوم سے واقفیت تھی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ کی دنیا سے تعارف ۔ تاہم اتنا یاد ہے ، اس وقت بھی یہ نام نحوست ، پریشانی اور ہجر مکانی کے حوالہ سے ہی سامنے آیا تھا۔ تب بھی بڑی تعداد میں ایسے ہندوستانی جو حصول رزق کی غرض سے برما میں مقیم تھے یا مستقل نقل مکانی کر چکے تھے، کمائی ہوئی ساری دولت لٹا کر، چھپتے چھپا تے، ہزار دقتوں کا سامنا کر تے ہوئے واپس وطن کا رخ کر رہے تھے۔آج ایک بار پھر برما کافی موضوع بحث ہے اوراس کے ساتھ تقریباً ویسی ہی دربدری، بھوک مری، درد و الم ، ظلم و ستم کی ایک ہفت بابی داستان وابستہ ہے۔تاریخ کے صفحات میں جھانک کرد یکھا تو پتہ چلا کہ قدررتی وسائل اور معدنیاتی خزانوں سے مالا مال ہونے کے باوجود یہ ملک ہمیشہ سے ہی بد امنی و بد انتظامی کی آما جگاہ رہا ہے۔رہے برما کے مسلمان، تو انہیں ناموافق حالات اور جبر کے سایہ تلے زندگی گزارتے ہوئے دو صدیاں بیت چکی ہیں۔
            میانما رکا صوبہ اراکان جہاں سے آرہی ظلم و تشدد کی خبروں نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے، فی الواقع 1784  سے پہلے ایک الگ ملک ہو اکرتا تھا۔ مسلم ملک۔ جسے بدھ مملکت نے بزور قبضہ کر کے برما کے زیر نگیں کر لیا تھا۔ اسی اراکان میں تقریباً آٹھ نو لاکھ روہنگیائی مسلمان بستیہیں ۔روہنگیائی مسلمانوں کی اس  نسل کو یاتو اراکانی کہہ سکتے ہیں یا برمی۔ یہ بنگلہ دیشی یا ہندوستانی ہرگز نہیں ہیں جیسا کہ ڈھاکہ دعویٰ کرتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ حال میں بنگلہ دیش کی سرحد پار کرکے داخل ہوئے غیر ملکی ہیں تو وہاں بسنے والے مسلمانوں کی نسلیںکہاں ہیں، جو نہ صرف خلیفہ ہارون رشید کیعہد خلافت میں مسلمان ہوگئے تھیبلکہانہوں نے تین صدیوںسے زائد عرصہ تک بے روک ٹوک اراکان پر حکومت کی تھی۔اصل میں جب برما 1824 میں انگریزوں کی کالونی بنا اس کے بعد سے ہی وہاں کی بودھی اکثریت کے من مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بیج بویا جانا شروع ہوگیا تھا، چنانچہ جب برما انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا، ذہنی طور پر وہ مسلم دشمنی بلکہ مسلم کشی کے بھیانک مرض میں گرفتار ہوچکا ہو چکا تھا۔1938 میں خود مختاری پانے کے بعد سے ہی مسلم کشی کا لامتناہی سلسلہ چل نکلا، دینی و دعوتی سرگرمیوں پر پابندی عائد کردی گئی۔ لائو اسپیکر سے اذان اور مساجد و مدارس کی تعمیر پر قدغن لگائی گئی۔ شادیوں کے لئے بھی انہیں سرحدی سیکیورٹی فورسز سے اجازت نامہ حاصل کرناضروری قرار دیا گیا۔سرکاری تعلیم اور نوکریوں کے دروازے پالیسی بنا کر بند کر دئے گئے۔ مزید ستم ظریفی  دیکھئے کہ 1982میں انہیں بنگلہ دیشی بتا کر ان کی شہریت چھین لی گئی۔جس کے نتیجہ میں تقریبا ً پانچ لاکھ روہنگیائی مسلمانوں کو ہجرت کرنا پڑا ۔ کچھ پڑوسی ممالک بنگلہ دیش کی طرف بھاگے تو کچھ نے سعودی شاہ کی اجازت سے مکہ میں پناہ لی۔چنانچہ معلوم یہ ہوا کہ آزاد بدھ مملکت نے باقاعدہ پروگرام کے تحت میانمار کے اقلیتی مسلمانوں کو ٹارگٹ بنایا اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
            حالیہ جون میں جب ایک بدھ لڑکی کی عصمت دری کا بہانہ بنا کر مسلم بستیوں پر مسلح حملہ، آتش زنی اور انہیں ان کی زمینوں سے بے دخلی کے جو شرمناک واقعات سامنے آرہے ہیں، انہوں نے انسانیت نواز افراد اور ممالک کی تشویش بڑھا دی ہے۔ واضح رہے کہ ایک روایت یہ بھی ہے کہ عصمت دری کا معاملہ تو گڑھا گیا ہے ورنہ تو اس لڑکی نے اسلام قبول کر کے باقاعدہ شادی کی تھی۔ یہی بات بدھ مذہب کے پیروکاروں کو پسند نہیں آئی اور چنانچہ پہلے تو انہوں نے دعوتی قافلہ پر حملہ کیا اور جب مسلمانوں نے احتجاج کیا توانہیںفرقہ وارانہ تشددکی نہ تھمنے والی آگ میں جھونک دیا گیا۔اس پر طرہ یہ کہ جب برمی فوج نے امن کی کمان سنبھالی تو امن کے علاوہ وہ تمام تحفے دئے جو ان کے درد،بے بسی اوربے وطنی کے احساس کو بڑھانے والے تھے۔ الزام ہے کہ فوج  پہلے تو اقلیت مخالف حملوں کا حصہ بن گئی ۔ ان کے آنے سے ظلم و تشدد کے واقعات باقاعدہ منظم طریقے سے انجام دئے گئے۔بعد ازیں اس نے ایک طرفہ اور جانب دارنہ کاروائی کرتے ہوئے کثیر تعداد میں روہنگیائی مسلمانوں کو گرفتار کرنا شروع کر دیا۔یہ الزام مسلمانوں کا لگا یا ہو انہیں بلکہ اقوام متحدہ کی ایک تنظیم کا ہے۔ ایسے میں جب فوج کے ساتھ مل کر متشدد بودھی روہنگیائی مسلمانوںپر جبر کے پہاڑ توڑ رہے تھے، انہیں اپنے بستیوں سے بے دخل یا گرفتار کررہے تھے،  وہ مدد کے لئے پڑوسی ممالک بالخصوص انڈونیشیا، ملیشیا، برونئی، بنگلہ دیش کی طرف دیکھ رہے تھے۔ مگر ان کا مجموعی ردعمل بے حد سرد تھا۔بنگلہ دیش نے تو لٹے پٹے روہنگیائی مسلمانوں کے قافلوں کی آمد پرنہ صرف روک لگائی، بلکہ پہلے سے پناہ گزین روہنگیائیوں کو کھانے اور اشیائے ضروت فراہم کر رہی سماجی تنظیموں کی سرزنش بھی کی۔کیونکہ یہاں معاملہ لٹے پٹے لوگوں کو بچانے یا امداد فراہم کرنے کا نہیں، بلکہ اس دعویٰ کا تھا کہ یہ بنگلہ دیشی مسلمان ہیں جو حال ہی میں برما میں وارد ہوئے ہیں۔  دوسری طرف برما کے صدر تھین سین کا بیان آیا کہ ان لوگوں کو کسی دوسرے ملک میں بسانا چاہئے۔ایسے میں ایک بار پھر برما کے روہنگیائی مسلمان دوراہے پر کھڑے ہیں۔
            وہ تو بھلا ہو کہ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں جاگ رہی تھیں اور اس کے چلتے کچھ مسلم ممالک کی غیرت بھی جاگ گئی۔ترکی نے باقاعدہ چندہ جمع کر کے وفد بنا کر برما بھیجاجس میں وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کی اہلیہ شامل تھیں۔ سعودی عرب نے بھی انفرادی طور پر اور آرگنائزیشن آف مسلم کنٹریز نے اجتماعی طورپرنہ صرف مذمتی قرارداد پاس کی، بلکہ امداد بھی روانہ کی۔لیکن سوال ہندوستان کے ردعمل پر بھیہے۔ آخر صلح کل اور نان الائنٹمنٹ کی پالیسی میں یقین رکھنے والا یہ ملک کیوں پیچھے رہ گیا۔ ہندوستان نے حال ہی میںسری لنکا کے بارے میںا مریکی قرار داد کی حمایت کی تھی۔ پھر کیا چیز اسے برمی اقلیت کی ہمنوائی سے روک رہی ہے، جب کہ اقوام متحدہ کے ادارے بھی چیخ چیخ کر اس ظلم و جبر کی کہانی بیان کر رہے ہیں۔ سردست تو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ ہندوستان دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے کا الزام اپنے سر نہیں لینا چاہتا، بالخصوص ایسے حالات میں جب کہ پڑوسی مسلم ممالک جیسے ملیشیا، انڈونیشیا، برونئی اور بنگلہ دیش سبھی کا رویہ بے حد سرد ہے۔اس پر طرہ  برما کا یہ دعویٰ ہے کہ روہنگیائی اصلاً بنگلہ دیشی ہیں، جب کہ ہندوستان خود بنگلہ دیشی مہاجرین کے مسائل سے نبردآزما ہے۔ لیکن ہمارے ملک کے ارباب حکومت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ یہ معاملہ نہ تو بنگلہ دیشیوں کی برما میں گھس پیٹھ کا ہے اور نہ ہی تنگ دل پڑوسی ممالک کے ذریعہ پناہ دینے میںسرد مہری کا۔ یہ معاملہ ظلم و جبر اور حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا ہے جس میں میانمار کو مہارت حاصل ہوچکی ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں پرپچھلے ساٹھ ستر سال سے چلے آرہے تشدد کے سلسلہ کی روک تھام کا ہے، جس میں ان تما م افراد، اقوام اور ممالک کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے جو انسانی قدروں اورانسانی حقوق میں یقین رکھتے ہیں۔
            افسوس اس بات کا ہے کہ یہی بات جب ہندوستانی مسلمان ارباب حل و عقد کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں ، خواہ اس ناطے سے ہی سہی کہ ظلم ان کے مسلم بھائیوں پر ہو رہا ہے، تو نت نئے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں۔حکمراں ان کی گلیوں کا رخ نہیں کرتے، انتظامیہ ان کی باتیں اوپر نہیں پہونچاتا، پھر ان کے وہ جذبات و احساسات اہل اقتدار تک کیسے پہونچیں، جوعین ہندوستانی تہذیب و اقدار کے عکاس ہیں اور ہماری خارجہ پالیسی سے بھی نہیں ٹکراتے۔وہ میڈیا کی طرف دیکھتے ہیں کہ شاید وہی ہمیشہ کی طرح ان کی مدد کرے لیکن و ہ بھی منہ پھیر کر کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ آخر ایسا ہو بھی کیوں نہ جب کی ہندوستانی میڈیا خارجہ پالیسی کے بارے میں ساری لیڈ نارتھ و سائو تھ بلاک سے لیتا ہے اور ابھی تک یہ مسئلہ شاید مذکورہ با لا وجوہات کے چلتے ان کی مضبوط دیواروں سے باہر نہیں آپایاہے۔ مگر بات اتنی سی نہیں ہے ۔ عام ہندوستانی مسلمانوں کو شکایت ہے کہ ان کی آواز مین اسٹریم میڈیابالخصوص الکٹرونک میڈیا نظر انداز کرتا ہے۔ جمعیت علمائے ہند جو امن پسند اور ملک دوست تنظیم ہے ، جنگ آزادی اور آزاد ہندوستان کی تعمیر میں جس کی خدمات ناقابل فراموش ہیں ،وہ بھی یہ شکایت کرتی ہے کہ ان کے  لاکھوں کے پر امن احتجاج اور جلسوں کو بھی میڈیا کو ریج نہیں دیتا ہے۔اگر کبھی یہ احسان کربھی دیا تو بس اتنی بھر خبر آتی ہے کہ کثیر مجمع کی وجہ سے ٹریفک کا نظم درہم برہم ہوگیا۔ دوسری طرف کل کی بات لیجئے جب میڈیا راج ٹھاکرے کی ریلی کو قدم بہ قدم کور کر رہا تھاجو رضا اکیڈمی کی اس جلسہ میں ہوئے تشدد کے واقعات کی مذمت کے لئے منعقد کی گئی تھی ، جس کا مقصد میانمار اورآسام میں جاری ظلم و بربریت کے خلاف آواز اٹھانا تھا۔ 
            افسوس اس بات پر بھی ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں پر جذباتیت کا جو الزام لگا یا جاتا ہے،وہ اسے موقع بہ موقع ثابت کرنے پر کیوں تل جاتے ہیں۔ رضا اکیڈمی اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتی کہ اس کا پہلا کام ہندوستانی مسلمانوں کی ذہنی، روحانی اور معاشرتی تربیت و اصلاح ہے۔ وہ کون سے مسلم نوجوان تھے جنہیں اتنا تک نہیں معلوم کہ امر جوان جیوتی کی کیا علامتی حیثیت ہے۔ پھر جسٹس کاٹجو کے اس سچ کے باوجود کہ ’میڈیا بسا اوقات جلسوں اور احتجاج کا حصہ بن جاتا ہے، جیسا کہ بابری مسجد کار سیوا کے وقت ہوا تھا‘‘ ، یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ میڈیا کا ایک بڑا حصہ ابھی بھی سیکولر ہے اور یہ بات گجرات فسادات کے موقع سے ثابت بھی ہوچکی ہے۔ اگر ہمارا رویہ یوں ہی جذباتی اورردعمل غیر ذمہ دارانہ رہا تو اس سیکولر اکژیت کی ذہنی تبدیلی میں کتنا وقت لگے گا؟
  --------------------------------------------------------------------------------------------------
Asif Azmi
36, 2nd Floor, Jaipuria Enclave, Kaushambi, Ghaziabad- 201010 (UP)

Saturday, August 11, 2012

گن کلچر اور امریکی معاشرہ کا سچ


گن کلچر اور امریکی معاشرہ کا سچ

آصف اعظمی 


امریکہ میں صدارتی انتخاب کی تیاریاں چل رہی ہیں۔صدر براک ابامہ بھی اپنے وعدوں اوردعووں کے ساتھ میدان میں ہیں۔ وہ شہر در شہر ، ریاست در ریاست طوفانی دوروں کے ذریعہ ایک بار پھر حالات اپنے موافق کرنے کی جگت میں مصروف ہیں۔ایسے ہی ایک دورہ کے دوران جب صدر ابامہ فلو ریڈا میں ایک سیاسی ریلی سے خطاب کر رہے تھے، خبر آئی کہ امریکی ریاست کولو راڈو کے شہر آرورا کے ایک سنیما گھر میںایک مشتبہ شخص کے ذریعہ فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے جس میں بارہ افراد ہلاک اور اٹھاون زخمی ہوگئے ہیں۔ صدر نے تقریر مختصر کی اور کہا کہ سیاست کرنے کے لئے اور بہت سے دن آئیں گے، یہ دن دعا اور غور و فکر کا ہے۔ پھر تو خبروں کی جیسے جھڑی سے لگ گئی۔ سوگ میںتما م سرکاری عمارتوںپر لگے امریکی پرچم جھکا دئے گئے۔ صدر ابامہ اور ان حریف مٹ رو منی نے سیاسی سرگرمیاں موخر کردیں۔ایک مشتبہ شخص جیمس ہومز رائفل کے ساتھ پکڑا گیا۔ پھر اس کے گھر سے بڑی مقدار میں اسلحہ و بارود برآمد ہوا۔ عدالت نے اسے کسٹڈی میں بھیج دیا۔ ان خبروں کے بیچ بات ایک ہی اہم ہے۔ وہ بات جودنیا کے آئیڈیل ، سپر پاور اور نیو ولڈ آرڈر کے خالق امریکہ کے صدر کے زبان سے ادا ہوئی ہے کہ یہ دن دعا اورغور وخوض کا ہے۔ 
غوروفکر کا سلسلہ شروع بھی ہوگیا ہے ۔ حسن مجتبیٰ نے بی بی سی اردو پورٹل پر ©”امریکہ میں ’گن کلچر‘پھرزیر بحث“ کے عنوان سے اپنے مضمون میں تفصیل سے گفتگو کی ہے کہ کس طرح ہر بالغ امریکی شہری کو ہتھیار رکھنے اور محض اپنے ڈرائیونگ لائسنس یا ریاستی شناختی کارڈ دکھا کر کسی بھی اسلحہ کی دوکان سے بندوق خریدنے کا حق حاصل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ”امریکہ میں گن لابی یا گن کنٹرول لابی یا اینٹی گن لابی امریکی سیاست اور اقتدار میں ایک دوسرے سے گتھم گتھا رہی ہیں۔ یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ بہت سے ڈیموکریٹ کنٹرول کے حامی ہیں جب کہ رپبلکنز کی بڑی تعداد گن لابی کے حق میں ہوتی ہے۔ یہاں امریکی سیاست پر با اثر نیشنل رائفل ایسوسی ایشن بھی ہے اور کئی امریکی شہروں میں قومی گن شو بھی منعقد ہوتے ہیں۔ جنہیں دیکھنے کے لئے مرد ہوں کہ خواتین جوق در جوق آتے ہیں۔ لیکن ڈیموکریٹس ہوں کہ رپبلکنز، تقریباً ڈھائی سو سال قبل آئین میں کی گئی دوسری ترمیم کے تحت امریکی شہریوں کو ملنے والا ایسا حق مانتے ہیں جس کے تحت ہر بالغ امریکی کو اپنے دفاع میں بندوق رکھنے کا حق حاصل ہے۔ “ اب ایسے میںکتنا بھی غور کر لیا جائے اور میڈیا بحث ومباحثہ کے کتنے ہی دروازے کیوں نہ کھول لے، نتیجہ تو صفر ہی آنا ہے، کیونکہ ڈیموکریٹس اور رپبلکنز دونوں ہتھیار رکھنے کے حق کو لے کر ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں۔ وجہ امریکی سماج اور امریکی عوام ہیں۔ وہ ہتھیاروں سے پیار کرتے ہیں ، چنانچہ کہا یہ بھی جاتا ہے کہ امریکہ میں جتنی بندوقیں فوج کے پاس ہیں ، اس سے کہیں زیادہ عا م لوگوں کے گھروں میں موجود ہیں۔ حسن مجتبیٰ کے مذکورہ مضمون سے ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو: ”میرے ایک اینتھروپولوجسٹ دوست کے مطابق ©’امریکی ہتھیاروں سے عشق کرتے ہیں‘اور یہی بات آپ کو کئی امریکی فخر سے بتائیں گے۔یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ امریکہ دنیا میں بندوق کا کلچر رکھنے والے ملکوں میں سب سے آگے ہے اور اس کی تاریخ اور قومی زندگی میں بندوق ایک جزو لاینفک رہا ہے۔۔۔۔امریکی رائفل مین کا ایک ہیر و والا’ماچو مین‘ تصور امریکی زندگیوں اور لوک گیتوں میں بھی موجود ہے۔۔۔۔حال ہی میں برطانوی اخبار گارجین نے دنیا میں آتشیں اسلحہ رکھنے والے ملکوں کا ایک نقشہ شائع کیا ہے جس میں امریکہ کو اول نمبر پر بتایا گیا ہے اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اٹھاسی اعشاریہ آٹھ فیصد افراد بندوق سے مارے جانے کے خطرے کی زد میں ہیں ۔“ 
یہ عجیب صورت حال ہے کہ آئے دن امریکہ میںعام شہریوں کے ہاتھوں تشدد کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، لیکن گرفتاریوں، بیان بازیوں اور بحث و مباحثہ سے آگے بات بڑھتی ہی نہیں ہے اورسارا معاملہ ایک مخبوط الحواس کی جنونی کاروائی کے خانہ میں فٹ کردیا جاتا ہے۔ چنانچہ حالیہ واقعہ کے بعد بھی جب ایک امریکی میگزین نے عام شہریوں میںسروے کرایا تو زیادہ تر لوگ ہتھیار رکھنے کے حق سے دستبردار ہونے کے حق میںنہیں تھے۔بلکہ بعض نے تو پلٹ کر کچھ اس قسم کا جواب دیا کہ” اگر میں وہاں ہوتا تو قاتل کو پہلے ہی مار گراتا۔ فی الواقع اگر کسی کے پاس بھی بندوق ہوتی تو ملزم کو اتنا بڑا جانی نقصان کرنے سے روکا جا سکتا تھا۔“ صدر ابامہ کے حریف امیدوار مٹ رومنی خودہتھیار رکھنے کاحق دہندہ دوسری ترمیم کو لے کر کچھ سننے کو آمادہ نہیں ہیں۔ و ہ کہتے ہیں کہ مجھے آج بھی پورا یقین ہے کہ دوسری ترمیم حفاظت اور مدافعت کے نقطہ نظر سے بالکل درست ہے۔مجھے نہیں لگتا کہ نئے قوانین اس قسم کے سانحے روک پانے میں کوئی خاص کامیابی حاصل کر پائیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ آرورا، کولو راڈو میں پہلے سے کئی سخت قوانین موجود ہیں۔ ہمارا چیلنج قانون نہیں، بلکہ وہ افراد ہیںجو حقائق سے بے بہرہ ہو کرایسے عجیب و غریب کام کرتے ہیں جن کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ 
غور و فکر کی تجویز صدر ابامہ کی جانب سے آئی ہے اور رائیں مٹ رومنی پیش کر رہے ہیں۔ صدر اب بھی ابامہ صاحب ہیں اور آئندہ کے لئے بھی ان کو نیک خواہشات پیش کی جانی چاہئے۔ لیکن مٹ رومنی کی بات میں دم ضرور ہے۔ بات گن لابی اور اینٹی گن لابی کی موافقت یا مخالفت کی نہیں ہے۔ بات تو دراصل اس سماج کی ہے جہاں تشدد نام کی ایک تہذیب کا راج قائم ہو چکا ہے۔ جہاں ماں اپنی پانچ سال کی بچی کو حقیقی رائفل کو نہارتے دیکھ کہتی ہے کہ بٹیا یہ رائفل تمہاری عمر کے لحاظ سے بڑی ہے ۔ابھی تم چھوٹی بندوق پر گزارا کر لو۔ جہاں گھروں کے دروازوں پر کتے سے ہوشیار کی جگہ ، مالک سے ہوشیار رہنے کی دھمکی کچھ انداز میں لکھی ہوتی ہے کہ ”خبردار، بلا اجازت داخل ہوئے تو گولی مار دی جائے گی“۔آخر یہ کیسے سنسکار ہیں کہ 1997 سے 2008 تک امریکی درسگاہوں میں فائرنگ اور تشدد کے بیسوں واقعات میں سو سے زائد ا فراد کو اپنی جانیں گنوانی پڑتی ہیں۔ ورجینایونیورسٹی میں اسی قسم کی اندھا دھند فائرنگ کے نتیجہ میں بتیس لوگوں کی دردناک موت کو یاد کر کے آج بھی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ یہ تعلیمی اداروں کی فیگرس ہیں ورنہ تو ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ میں 2000سے 2009 تک 298,000 اموات یعنی سالانہ تقریباً 30,000 اموات گن فائرنگ سے ہوئی ہیں۔ فروری 2009 میں محض بارہ دن کے وقفہ میں فائرنگ سے شکاگو کے شاپنگ مال میں پانچ خواتین کی ہلاکت اور الینوانے یونیورسٹی میں پانچ طلباءاور ایک استاد کی اموات نے امریکی معاشرہ کی چکا چوند کے پیچھے کے سچ کو دنیا کے سامنے پوری طرح بے نقاب کر دیا تھا۔ 
امریکی معاشرہ کا سچ بندوق رکھنے اوراس کے استعمال میں نہیں، بلکہ اس تہذیبی انتشار اورسماجی اقدار کے بکھراﺅمیں پوشیدہ ہے جو ہابس اور روسو کے افکار کے درمیان کا فرق ہے۔ امریکی سماج کا سچ اس تفاوت میں بھی پوشیدہ ہے جو اسے ایک طرف تو دنیا بھر کے لئے دوسری جنگ عظیم اور سوویت یونین کے بکھراﺅ کے بعد نیو ولڈ آرڈر اور بہترین مواقع والے ملک کی حیثیت سے شناخت فراہم کرتا رہا تو دوسری طرف خود اس کے عوام کے لئے مواقع تو دور ، اتنے مسائل کھڑے کر دئے ہیں کہ وہ ”وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو“ جیسی مہم چلانے پر مجبور ہیں۔ امیر و غریب کے درمیان وسیع ہوتی خلیج کے چلتے عوام امیروں سے نفرت تک کرنے لگے ہیں۔ بے روزگاری کی شرح 9 فیصد سے زائد ہے جو نوجوانوں میں پچیس فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ تعلیم اور علاج عام آدمی کی پہونچ سے دور ہوتا جارہا ہے۔امریکی معاملات کے جانکار ایک مبصر کے لفظوں میں” عوام کے معیار زندگی میںمسلسل تنزلی ناقابل برداشت حد تک پہونچ گئی اور ’بہترین مواقع کی سرزمین‘غریب لوگوں کے رہنے کے لئے تلخ تر ہوگئی۔“پے در پے تکالیف،نت نئی پریشانیاں۔ کہیں نوکری چھن جانے کا غم تو کہیں بے گھری اور دربدری کا خوف۔ کہیں زندگی کی معمولی معمولی سہولیات سے محرومی کا احساس توکہیںوعدوں کا ایفا نہ کر پانے والی حکومتوں کے خلاف غصہ ۔ جب ذہن اس حد تک پریشاں ہوں اور دلوں پر اس قدر بوجھ۔ اوپر تلے امید کی کوئی کرن بھی دکھائی نہ دے تو مخبوط الحواس ہو جانا، فرسٹریشن کا شکار ہوجانا عین ممکن ہے۔پھر نظریاتی بنیاد پر جو خلا امریکیوں کے درمیان پایا جاتا ہے وہ معاملہ کو مزید پیچیدہ بنا دیتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام جو دولت اور منافع کی بنیادوں پر کھڑا ہے، اقدار اور بہبود جیسے الفاظ سے عاری ہونے کی وجہ عام شہریوں کے لئے کوئی نظریاتی کشش نہیں رکھتا۔ چنانچہ بسا اوقات وہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے چھٹکارہ پانے کے لئے خود کشی کا سہار لیتا ہے تو کبھی ہالی ووڈ کی تصوراتی دنیا میںپہنچ کر خود ہی کسی سپر ہیرو یا ڈان (جو بھی نظریہ کی عدم موجودگی میں اس کے لئے کشش کا حامل ہو) کی طرح حالات کو اپنے موافق کرنے میں صحیح غلط سبھی حدوں سے گزر جاتا ہے۔ 
بندوقوں کے علاج کی نہیں ، انسانوں کے علاج کی ضرورت ہے۔یوںبھی کسی نے سچ کہا ہے کہ بندوقیں خود بخود نہیں چلتیں انہیں انسان چلاتا ہے۔بہتر سماج کی تشکیل کے لئے نظریہ اور اقدار کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ امریکہ کا موڈرنائزیشن اور انڈسٹریلائزیشن یقینا قابل ستائش ہے۔اس موڈرنائزیشن میں جتنا وقت لگا ہے، اس سے کم وقت میں سماجی اقدار اور نظریہ ¿ حیات کی بنیادیں تیار کی جاسکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت امریکہ میں سوشلزم اور اسلام دونوں کی آوازیں صاف سنائی دے رہی ہیں۔ مستقبل کے دامن میں کیا ہوگا نہیں معلوم، لیکن یہ امید ضرور کی جانی چاہئے کہ جلد ہی امریکی سماج میں اقدار اور نظریہ سے معمور تہذیب کی دور دورہ ہوگا۔ 
---------------------------------------------------------------------------------
Asif Azmi 
36, Second Floor, Jaipuria Encalve, Kaushambi, Ghaziabad-201010 (UP) Mob: 9810114484 asifazmi@hotmail.com ؑ 

ASIF AZMI - A Brief Profile…..

ASIF AZMI

A Brief Profile…..

Asif Azmi has a long career in media industry in various roles such as journalist, filmmaker and advertising professional. He has also served as an Advisor to Doordarshan, Prasar Bharti, Govt. of India. 

He has written/ compiled more than 100 articles/ research papers and 11 books including a book on his journalistic articles “Jahane Taza- Afkare Taza”, awarded by Delhi Urdu Academy (2014), “Irfan Siddiqui; Hayat, Khidmat aur Sheri Kainaat” awarded by Bihar Academy (2015) and “Pt. Anand Narain Mulla; Hayaat-o-Kamalaat”, awarded by UP Urdu Academy (2017). His recent books on Majrooh Sultanpuri appreciated and launched in person by Hon’ble President, Shri Ram Nath Kovind.

He has worked as Managing Director of Shezon Media Pvt. Ltd for 16 years. Presently besides working as freelance Ad Filmmaker, he is running two reputed NGOs i.e. IDEA Communications and The Pen Foundation, both engaged in promotion of literary and cultural heritage of our country.

Education:

            •     GRADUATION in Political Science from Aligarh Muslim University, Aligarh - 1998

            •      POST GRADUATION in Mass Communication from AJK Mass Communication  Research Centre, Jamia Millia Islamia, New Delhi - 2001

 

Languages Known:

Fluency in Urdu, English and Hindi, and working knowledge of Arabic, Persian and Nepalese          

Present Positions:

            •           CHAIRMAN, The Pen Foundation, a trust to support writing community

            •           DIRECTOR, IDEA Communications, a registered National Media Society

            •           Convener, “Maati”, A Purvanchal Festival of Art, Culture, Food & Tourism

            •           VICE-PRESIDENT, General Shah Nawaz Memorial Foundation

            •           EXECUTIVE MEMBER, Sakhsham Bharti

            •           Representative of Anjuman MHU Qatar & Majlis Fakhr-e-Bahrain in India


Past Positions:

            •           ADVISOR, Doordarshan, Prasar Bharti, Govt. of India

            •           NATIONAL CONVENER, The Indian Heritage Caravan

            •           Director, Himalaya Plywood Industries Pvt Ltd, Nepal

            •           EDITOR of the prestigious Aligarh Magazine, Aligarh Muslim University

            •           SECRETARY, Aligarh Muslim University Seerat-un-Nabi Committee

            •           EDITOR, Bahs-o-Mubahasa, a quarterly Urdu journal

            •           CHIEF EDITOR, The Right Pulse English Monthly

            •           CO-ORDINATOR, Indo-Gulf Business and Cultural Exchange Forum

            •           MEMBER, Programme Evaluation Committee, DD Urdu, Prasar Bharti, Govt. of India

Academic Accomplishments:

            •           DELIVERED Speech & Key Note Address at different prestigious forum like National Press Day of Press Council of India, MP Chamber of Commerce-Gwalior, United Economic Forum, Lucknow Bar Association, Indian Railway Institute of Logistics and Material Management, Maharashtra Sahitya Academy, Delhi Urdu Academy, AMU, JMI etc

            •           ATTENDED & PRESENTED many research papers at different National & Int. Seminars organised by JMI, IGNOU, NCPUL, Al-barkat Institute Aligarh, MANUU, Anjuman-i-Islam Mumbai, Allahabad University, IDEA Communications, Majlis Fakhr-e-Bahrain, Anjuman Muhibban-e-Urdu Hind Qatar, Bazm-e-Alig Qatar, JMI Alumi Association-Qatar, JMI Alumi Association- UAE, Ghalib Institute, Ghalib Academy, AP, Delhi & Maharashtra Academies

            •           WRITTEN & COMPILED the BOOKS namely “JAGDISH PRAKASH; FIKR-O-FAN” and “NAGHMA-E-MAN AZ JAHAN-E-DEEGAR ASAT” (under publication) based on critical appreciations of Urdu poets/ literature personalities and their works – 2020- 2021  

            •           RESEARCH, COMPILATION & FOREWORD of “MAJROOH FAHMI” (URDU) & “MAJROOH SULTANPURI; EK ADHYYAN” (HINDI) a book on life and achievements of legendary Majrooh Sultanpuri. The book was appreciated and received in person by the Hon’ble President of India, Shri Ram Nath Kovind and released by Shri Arif Mohd Khan (Governor of Kerala) & Shri Ram Bahadur Rai (President, IGNCA) – 2019

            •           RESEARCH, COMPILATION & FOREWORD of “KHALILUR RAHMAN AZMI; EK BAZYAAFT” a book on life and achievements of the pioneer of modern Urdu poetry, Khalilur Rahman Azmi. The book was release by top academics, bureaucrats, scientists and famous Azmi personalities who specially travelled to Azamgarh to release this book in a glittering function in Shibli Academy, Azamgarh. Almost all important Urdu journals/ newspapers like Aajkal, Urdu Duniya, Risaala Jamia, Aiwan-e-Urdu, Inquilab etc have published reviews of this book. – 2017

            •           EDITED AND CO-AUTHORED/COMPILED TWO BOOKS on life and achievements of Urdu poets; Irfan Siddiqui and Pt. Anand Narain Mulla namely “Irfan Siddiqui: Hayat, Khidmat aur Sheri Kainaat” awarded by UP Urdu Academy and “Pt. Anand Narain Mulla: Hayat-o-Kamalat” respectively in the year 2015 & 2016

            •           WRITTEN & COMPILED A BOOK CALLED “JAHAN-E-TAZA; AFKAR-E-TAZA” based on articles on Indian foreign policy and international affairs published in Alami Sahara. The book was awarded by Delhi Urdu Academy in the journalism category and the award was bestowed away by Justice Aftab Alam (Judge, Supreme Court of India) – 2014 

            •           COMPILED A BOOK CALLED ‘JUSTICE WITH URDU’ which is based on landmark judgements of Justice Markandey Katju. The book was release by the then Ho’ble Vice-President of India, Shri M. Hamid Ansari in the presence of the then Union Law Minister and Hon’ble Judges of Supreme Court of India and Delhi High Court. – 2012

            •           EDITED TWO BOOKS OF SAIYID HAMID entitled “Nuquoosh-e-Javed” & “Faryad”, which were released by Lyricist Shri Javed Akhtar and former Prime Minister Shri I.K. Gujral respectively along with Shri Kuldip Nayar and Shri Namwar Singh etc. – 2002 & 2003

            •           WROTE MORE THAN 100 ARTICLES on social, political, economic and international issues for Urdu daily newspapers like Hindustan Hindi, Nav Bharat Times, Statesman, Inquilab, Qaumi Awaz, Rashtriya Sahara, Hamara Samaj, Siasat, Hamara Samaj, Sahafat as well as magazines like Outlook, Indo-Gulf Times, Almi Sahara, Tahzeebul Akhlaq etc.

 

 

Professional, Social & Cultural Accomplishments:

            •           WRITTEN, PRODUCED & DIRECTED several Documentaries, Ad-Films & TV Soaps for both TV & Film mediums in addition to some Radio Talks etc.

            •           INITIATED and organised 4 consecutive Purvanchal Festivals “Maati” at IGNCA. Almost 3000 Purvanchalis living in Delhi have attended these festivals. Besides, many Governors of states, Union Ministers, MPs, MLAs, Secretaries to Govt. of India, film personalities, Artists and top academic have graced these occasions.  

            •           LAUNCHED Urdu Heritage Caravan & Sanskrit Heritage Caravan with an idea to take almost every Urdu & Sanskrit scholar and poets to different parts of the country and showcase the performances for better cultural exchange. The caravan covered 7 states and graced and facilitated by the respective Chief Ministers of those states.

            •           ORGANISED more than 50 national and international events mostly of Urdu, which were graced by dignitaries like President, Vice-President, Cabinet Ministers, Governors, Chief Ministers, Foreign Ambassadors, Judges of Supreme Courts & High Courts to film celebrities, media personalities, scholars and poets.

 

 

Awards & Recognitions:

            •           HT Excellence Award for Ad-Marketing

            •           Delhi Advertising Club (DAC) Award for Best TV Ad Film production

            •           Delhi & UP Urdu Academy Award on two different books

            •           Prawasi Sansar Award for the Hindi work on Majrooh Sultanpuri

            •           All India Intellectual Conference Award for Social Service

            •           Delhi Urdu Academy- Nai Awaz Award for Mass Communication

            •           Hyderabad Urdu Journalists’ Association Award for Urdu promotion

            •           “Lauh-e-Sipas” by Anjuman Muhibban-e-Urdu Hind, Qatar for Urdu Promotion

            •           “Lauh-e-Sipas” by Majlise Fakhre Bahrain for the promotion of Indian cultural heritage

            •           Many other citations and plaque of honours by various social & literary organisations

            •           Merit Scholarship Awards by Ministry of HRD during studies

            •           Many 1st  prizes in speech & inter-universities debate competitions during student life

 

CONTACT:

Ph: +91 120 - 4318700  | Email: asifazmidelhi@gmail.com 


خیال کی وحشت

جہاں کہ صدیوں کی خاموشیاں سلگتی ہیں
کسی خیال کی وحشت نے گنگنایا مجھے
میں جیسے وقت کے ہاتھوں میں اک خزانہ تھا
 کسی نے کھودیا مجھ کو کسی نے پایا مجھے